واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ درویش محمد

رحمتہ  اللہ  علیہ

           آپ نہایت ہی عظیم المرتبت اور صاحب فضیلت بزرگ تھے لیکن مخلوق کی کثرت سے بچنے کے لیے آپ نے بچوں کو تعلیم و تدریس دینی شروع کردی تھی۔ اسی لئے لوگ آپ کو ایک مولوی ہی سمجھتے تھے اور آپ نے بھی اسی کو غنیمت جانا اور اسی پر پوری توجہ رکھی۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

          ایک روز حضرت نور الدین خوانی رحمتہ اللہ علیہ آپ کے علاقے میں آئے تو اپنے فرزند ارجمند حضرت خواجہ امکنگی رحمتہ اللہ علیہ سے حضرت شیخ سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا اور اپنے فرزند عزیز کے ہمراہ حضرت شیخ نورالدین خوانی کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ جب آپ حضرت شیخ نورالدین کی خدمت میں پہنچے تو اس وقت حضرت شیخ ٹوپی اور کرتہ پہنے ہوئے بے تکلف بیٹھے تھے۔ آپ کو دیکھ کر حضرت شیخ فورًا اٹھے اور پرجوش معانقہ کیا اور بڑی دیر تک بغلگیر رہے۔ پھر حضرت شیخ نے اپنی دستار مبارک سر پر سجائی اور جبہ مبارک زیب تن فرمایا اور دوزانو مراقب ہوکر آپ کے حضور بیٹھ گئے۔ جب تک آپ وہاں تشریف فرما رہے حضرت شیخ اسی حالت میں رہے۔ جب آپ نے واپسی کا قصد فرمایا تو حضرت شیخ نے کچھ دور چل کر آپ کو رخصت فرمایا۔

         اس کے بعد حضرت شیخ نے لوگوں سے پوچھا کہ طالبان معرفت و حقیقت کی ان بزرگ کے پاس کافی آمد و رفت ہوگی تو لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو کوئی شیخ نہیں ہیں بلکہ یہ تو ایک مولوی ہیں جو بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت شیخ نے فرمایا کہ یہاں کے لوگ کس قدر نابینا اور مردہ دل ہیں کہ ایسے ولی کامل اور مرد قلندر سے اکتساب فیض نہیں کرتے۔

        حضرت شیخ کے اس کلام کے مشہور ہوتے ہی آپ کے پاس طالبان خدا کا تانتا بندھ گیا۔ لوگ آپ کی خدمت میں آکر معرفت الٰہی کی تحصیل کرنے لگے، لیکن آپ ہمیشہ اپنی عزلت اور گوشہ نشینی کو یاد فرماتے۔

      حضرت خواجہ درویش رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے ماموں حضرت خواجہ محمد زاہد وخشی رحمتہ اللہ علیہ سے نیابت و خلافت حاصل تھی۔ بیعت سے تقریبًا پندرہ سال پہلے ہی آپ کے بے چین اور خدا کی محبت کے طالب دل کو کسی کل چین نہیں پڑتا تھا اور ہمہ وقت زہد و عبادت میں مشغول رہتے اور خلوت نشینی کی حالت میں بغیر کھائے پیئے اکثر ویرانوں کی سیر کرتے تھے۔ اسی عالم میں ایک روز بھوک کی شدت کے باعث آپ نے اپنا رخ انور آسمان کی طرف اٹھایا تو اسی وقت حضرت خضر علیہ السلام کو اپنے سامنے موجود پایا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اپ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اگر صبر و قناعت مطلوب ہے تو حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمۃ کی خدمت میں جاکر قدمبوسی کا شرف حاصل کرو اور ان کی صحبت کو اختیار کرو، وہ تمہیں صبر و قناعت سکھادیں گے۔ اتنا سننا تھا کہ آپ اسی وقت حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمۃ کی طرف چل دیئے اور آپ کی خدمت میں پہنچ کر شرف بیعت حاصل کیا اور مسلسل ریاضت و مجاہدے سے درجہ کمال و ارشاد تک پہنچے، اور حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمۃ کے انتقال فرمانے کے بعد آپ جانشین مقرر ہوئے اور آپ کے طریقۂ عالیہ کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

        آپ کے بچپن کے حالات پردہ اخفاء میں ہیں۔ صرف اسی قدر پتہ چلتا ہے کہ آپ ۱۶ شوال ۸۴۶ ہجری بمطابق ۶ فروری ۱۴۴۴ع کو اسقرار (ترکی کے ایک گاؤں) میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت بزرگ خاتون اور ولی کامل عارف باللہ کی ہن تھیں۔ اسی نسبت سے آپ کی تربیت پر خاص توجہ دی گئی۔

       آپ پر بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت کا غلبہ رہتا تھا اسی لئے آپ نے تہنائی کو پسند فرمایا۔ لیکن حضرت خواجہ محمد زاہد علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد آپ زیادہ عرصہ مخلوق کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے مراتب عالیہ کو مخلوق پر ظاہر فرمایا۔

      آپ کے ایک ہمعصر بزرگ حضرت خواجہ حسین خوارزمی علیہ الرحمۃ اپنے وقت کے مقتدر اور صاحب نسبت و تصرف بزرگ تھے۔ آپ جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے وہاں کے مشائخ کی آپ کے روحانی تصرف کے سامنے کوئی حیثیت نہ رہتی اور جو بزرگ و درویش آپ سے ملاقات کے لئے آتا، آپ روحانی توجہ سے اس کی باطنی نسبت سلب فرمالیتے۔ ہوتے ہوتے یہ بات حضرت خواجہ درویش محمد رحمتہ اللہ علیہ تک بھی جا پہنچی، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔ ایک مرتبہ حضرت خواجہ حسین خوارزمی علیہ الرحمۃ کا گذر آپ کے علاقے سے ہوا تو حضرت خواجہ درویش محمد علیہ الرحمۃ نے بھی حضرت خواجہ حسین سے ملاقات کا ارادہ ظاہر فرمایا اور کہا کہ ہم کو بھی حضرت خواجہ حسین کی ملاقات کے لئے جانا چاہیئے۔ یہ کہہ کر آپ نے توجہ فرمائی اور حضرت خواجہ حسین کی نسبت اپنے باطن میں سلب فرمالی۔ ادھر حضرت خواجہ حسین نے اپنے آپ کو نسبت سے خالی پایا تو نہایت درجہ حیران اور پریشان ہوئے، ادھر حضرت خواجہ درویش محمد علیہ الرحمۃ آپ سے ملاقات کے لئے سواری پر سوار ہوئے تو حضرت خواجہ حسین نے اپنے باطن میں نسبت کی خوشبو پائی۔ اسی وقت سواری کا اونٹ منگوایا اور اس خوشبو کی طرف چل دیئے۔ جس قدر آپ اس خوشبو سے قریب ہوتے چلے جاتے اپنی گم شدہ نسبت کی خوشبو زیادہ محسوس کرتے۔ آخر راستے میں دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی تو وہ خوشبو بھی یکدم ختم ہوگئی۔ اس وقت خواجہ حسین علیہ الرحمۃ نے جانا کہ میری نسبت حضرت خواجہ درویش محمد علیہ الرحمۃ نے سلب فرمالی ہے۔ آپ اسی وقت حضرت خواجہ کے قدموں پر گر پڑے اور نہایت عاجزی و انکساری کا اظہار فرمایا اور عرض کیا کہ حضرت مجھے علم نہ تھا کہ یہ اقلیم آپ کے زیر حکومت ہے۔ مجھے معاف فرمائیے اور اب میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔ آپ کو حضرت خواجہ حسین کی آہ و زاری پر رحم آگیا اور آپ نے ان کی باطنی نسبت واپس فرمادی۔ جیسے ہی حضرت خواجہ حسین نے اپنے باطن کو نسبت سے معمور محسوس کیا تو اسے غنیمت جان کر اسی سواری پر انہی قدموں اپنے وطن مالوف کی طرف روانہ ہوگئے۔

        یہ تھا آپ کا باطنی تصرف اور روحانی مقام کہ جہاں پر آپ قیام فرماتے تھے لوگوں کو فیض سے نوازتے تھے تو کسی دوسرے کو وہاں تصرف حاصل نہ ہوتا تھا۔ آپ کی ذات اقدس کے باعث طریقہ عالیہ نقشبندیہ کو بڑا فروغ حاصل ہوا اور ایک خلق نے آپ سے تکمیل کے مراحل طے فرمائے۔

        آپ بروز جمعرات ۱۹ محرم الحرام ۹۷۰ھ بمطابق ۱۵۶۲عیسوی کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا مزار اقدس آپ کے آبائی گاؤں اسقرار (ماوراء النہر) میں ہی مرجع خاص و عام ہے۔